وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ
(اے نبی)! آپ لوگوں کو اس [٤٣] دن سے ڈرائیے جب عذاب انھیں آلے گا تو اس دن ظالم کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہمیں تھوڑی سی مدت اور مہلت دے دے۔ ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور تیرے رسولوں کی پیروی کریں گے'' (اللہ تعالیٰ انھیں جواب دے گا) کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے یہ قسمیں [٤٤] کھایا کرتے تھے کہ تمہیں کبھی زوال آئے گا ہی نہیں
(32) یہاں بھی خطاب نبی کریم (ﷺ)سے ہے اور الناس سے مراد یا تو عام لوگ ہیں یا اہل مکہ ہیں، پہلا قول راجح ہے اس لیے کہ قیامت کے دن سے ڈرایا جانا مسلم و کافر سب کو شامل ہے، کفار موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے، اور جب کوئی داعی الی اللہ ایسی بات کرتا تو قسمیں کھا کر کہتے کہ دوسری زندگی کا عقیدہ باطل ہے، سورۃ النحل آیت (38) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ وہ لوگ بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو آدمی مرجائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔