وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی تھی : اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنا دے اور مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی (اس بات سے) بچائے رکھنا کہ ہم بتوں کی [٣٨] پوجا کریں
(24) مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ کفار قریش نے اللہ تعالیٰ کی عام نعمتوں کی ہی ناشکری نہیں کی، بلکہ اس کی خاص نعمت یعنی مکہ میں بسائے جانے کی بھی ناشکری کی اور اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، کیونکہ انہوں نے مکہ میں اپنی اولاد کو اس لیے بسایا تھا تاکہ نماز قائم کریں، بتوں کی عبادت نہ کریں، اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کریں، انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ مکہ کو امن و آشتی کا شہر بنا دے، وہاں کے رہنے والوں کے لیے انواع و اقسام کے پھل مہیا کردے، اور شہر مکہ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے تاکہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور اہل مکہ کو ساری نعمتوں سے نوازا، لیکن انہوں نے اللہ کی ناشکری کی اور بلد حرام کو بلد کفر بنا دیا اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہرایا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ کلمہ طیبہ کی مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مقصود لوگوں کو توحید کی دعوت دینی اور بتوں کی پرستش سے روکنا ہے۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد کا ہے، وہاں انہوں نے اپنے رب سے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ کوئی دعا کی، اور یہاں اللہ کے حضور خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کی ہے، اور مقام دعا مقام سکوت و ترک دعا سے اعلی و ارفع ہے تو معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دعا کی تھی اس وقت وہ درجہ کمالات میں عروج کو پہنچ چکے تھے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے آٹھ بیٹے تھے، ان میں سے کسی نے بھی بت کی پرستش نہیں کی۔