أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے؟[٢٢] اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے [٢٣] اور (تمہاری جگہ) نئی خلقت لے آئے
(15) آیت میں خطاب نبی کریم (ﷺ)سے ہے، اور مراد ان کی امت ہے، یا کافروں کے ہر فرد سے خطاب ہے اور مقصود یہ بتانا ہے کہ جس ذات باری تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے وہ یقینا اس بات پر قادر ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ یسین آیت (81) میں فرمایا ہے : İأَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُĬ یعنی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، بیشک قادر ہے اور وہی تو پیدا کرنے والا دانا بینا ہے۔ نیز مشرکین کو یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ہیں گر وہ اس کے اوامر کی اسی طرح خلاف ورزی کرتے رہے تو بہت ممکن ہے کہ انہیں ہلاک کردے اور ان سے اچھے لوگوں کو پیدا کرے جو اس کے مطیع و فرمانبردار ہوں گے۔ اس لیے کہ قادر مطلق کے لیے کوئی بات مشکل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (133) میں فرمایا ہے : İإِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ قَدِيرًاĬ یعنی اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو ! وہ تم سب کو فنا کردے اور دوسروں کو لے آئے اور اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔