سورة البقرة - آیت 170

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان ( کفار و مشرکین) سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔ اگر ان کے آباؤ اجداد ہی کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ وہ راہ ہدایت [٢١٢] پر ہوں ( تو کیا پھر بھی یہ لوگ انہی کی پیروی کریں گے؟)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

247: شیطان کی اتباع سے روکنے کے بعد، اب بغیر حجت و برہان آباء واجداد کی اتباع سے روکا جا رہا ہے جو درحقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو دین اتارا ہے اس کی اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے آباء واجداد کرتے تھے، یعنی بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کریں گے اللہ نے ان کی تردید کی کہ کیا تم اپنے آباء کی پیروی کروگے، چاہے انہوں نے دین کو بالکل نہ سمجھا ہو، اور حق سے دور رہے ہوں؟ فائدہ : اس آیت میں اس بات پر سخت نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن اور صحیح سنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے اور قرآن و سنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ، اور ہمارے فقیہ زیادہ سمجھتے تھے، اور یقیناً یہ حدیثیں ان کے علم میں رہی ہوں گی، لیکن کسی اقوی دلیل ہی کی وجہ سے انہوں نے ان حدیثوں کا انکار کیا ہوگا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان حضرات نے انکار احادیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے، اور اپنی کتابوں میں مدون کردیا کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں کے خلاف پڑے گی اسے رد کردیا جائے گا، اس لیے کہ یا تو وہ ضعیف ہوگی یا مرجوح یا منسوخ ہوگی۔ قرآن و سنت کے حق میں اس جرمِ عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی حدیثیں رائج ہوگئیں، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں، سیکڑوں سال سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن مقلدین انہیں درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش، اور عقائد کی تمام بیماریاں اسی چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں، کہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں، مشایخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں۔ اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔