وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ
آخر کافروں نے اپنے رسول سے کہہ دیا کہ : ہم تمہیں اپنے ملک [١٧] سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہمارے دین میں آنا ہوگا: تب ان کے پروردگار نے ان کی طرف [١٨] وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو یقیناً ہلاک کردیں گے
(12) جب کافروں نے دیکھا کہ انبیاء صبر کا پہاڑ بنے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں اور اللہ پر ان کا ایسا زبردست بھروسہ ہے کہ دعوت کی راہ میں انہیں کسی بات کی پرواہ نہیں، تو انہوں نے علی الاعلان دھمکی دے دی کہ یا تو تم ہمارے دین میں دوبارہ واپس آجاؤ گے یا تمہیں اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑے گا۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اہل حق ہر زمانے میں کم ہوا کیے ہیں اور اہل باطل کی کثرت رہی ہے اور حق کا چراغ بجھانے کے لیے ہمیشہ آپس میں تعاون کرتے رہے ہیں، اسی لیے انہوں نے کبر و غرور میں انبیاء کو ایسی دھمکی دی،