سورة ابراھیم - آیت 10

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

رسولوں نے انھیں کہا: ’’کیا اس اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ معاف کر دے اور ایک معین عرصہ [١٤] تک تمہیں مہلت بھی دیتا ہے‘‘ وہ کہنے لگے : ’’تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، تم چاہتے یہ ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے۔ ہمارے [١٥] پاس کوئی واضح معجزہ تو لاؤ‘‘

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(10) انبیائے کرام نے اپنی قوموں کے کفر اور آسمانی رسالت و دعوت کے انکار پر غایت درجہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور اس کے معبود حقیقی ہونے میں شبہ ہے، حالانکہ آسمان و زمین کا وجود اس بات پر شاہد قاطع ہے اور کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے، کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہی ہر چیز کا خالق و مالک اور معبود ہے، اور وہی تمہیں ہم پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے، ہم لوگ از خود تمہیں اس کی طرف نہیں بلا رہے ہیں، اگر تم ہماری تصدیق کرتے ہوئے اللہ پر ایمان لے آؤ گے، تو وہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اور ایک وقت معین تک دنیاوی زندگی سے مستفید ہونے دے گا، کافروں نے انبیاء کی دعوت کو دوبارہ رد کردیا، اور کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، کھاتے پیتے ہو، تمہیں ہم پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے اور نہ تم فرشتہ ہو، بس تمہارا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے معبودوں کی عبادت سے روک دو، اس لیے ہم تمہاری بات اسی وقت مانیں گے جب کوئی واضح اور صریح نشانی لاؤ کہ واقعی تم اللہ کے نبی ہو۔ یہ ان کا محض عناد اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ ہر نبی نے ایسے معجزات اور نشانیاں پیش کیں جو قوموں کی اس یقین دہانی کے لیے کافی تھیں کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔