يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ [٢٠٨] چیزیں ہیں، وہی کھاؤ اور شیطان کے پیچھے [٢٠٩] نہ لگ جاؤ۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے
244: جب یہ بیان ہوچکا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہی ہر شے کا خالق و مالک ہے، تو اب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ وہی اکیلا روزی دینے والا ہے، اور اسی نے انسانوں کے لیے زمین پر موجود ہر حلال اور طیب (یعنی جو فی نفسہ لذیذ ہو اور جسم و عقل کے لیے نقصان دہ نہ ہو) کو مباح قرار دیا ہے، اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر دور جاہلیت والے کئی قسم کے جانوروں کو بتوں کی طرف مختلف انداز میں منسوب کرتے، اور ان کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے۔ اس کی تفصیل سورۃ مائدہ آیت 103 میں آئے گی۔ 245: مقصود شیطان سے نفرت دلانا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : ۔ کہ شیطان بلاشبہ تمہارا دشمن ہے، سو تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو محض اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ آتش دوزخ میں پڑیں، (الفاطر : 6۔)