سورة الرعد - آیت 31

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر قرآن ایسا ہوتا کہ اس (کے زور) سے پہاڑ چلائے جاسکتے یا زمین کے طویل فاصلے فوراً طے کئے جاسکتے یا اس کے ذریعہ مردوں [٤١] سے کلام کیا جاسکتا، تو بھی یہ کافر ایمان نہ لاتے بلکہ ایسے سب امور [٤٢] اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ کیا اہل ایمان (ابھی تک کافروں کی مطلوبہ نشانی آنے سے) مایوس نہیں ہوئے کیونکہ اگر اللہ چاہتا تو (نشانی کے بغیر بھی) تمام لوگوں کو ہدایت دے سکتا تھا۔ اور کافروں کو تو ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی ہی رہے گی یا ان کے گھر کے قریب اترتی [٤٣] رہے گی تاآنکہ اللہ کا وعدہ (عذاب) آجائے۔ یقیناً اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(27) حافظ ابن کثیر کی رائے کے مطابق اس آیت سے مقصود قرآن کریم کی عظمت شان بیان کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل کی ہیں، اگر ان میں کوئی ایسی ہوتی جس کی تلاوت کرنے کے بعد پہاڑ اپنی جگہ سے چل پڑتا، یا زمین کے ٹکڑے ہوجاتے، یا مردے بول پڑتے، تو وہ قرآن کریم ہوتا، لیکن کافروں کا حال یہ ہے کہ اس آیت عظمی اور معجزہ کبری کے ہوتے ہوئے موسیٰ اور عیسیٰ کی نشانیاں جیسی کسی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور امام شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ کفار قریش کے سوال کا جواب ہے، انہوں نے آپ سے کہا کہ وہ مکہ کے پہاڑوں کو ہٹا دیں تاکہ شہر کشادہ ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے فساد رائے اور قرآن کریم کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ پہاڑ چل پڑے یا زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں یا مردے بول پڑیں تو بھی کفار اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئیں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔ (28) اگر اللہ چاہتا تو قرآن کے ذریعہ وہ کچھ ہوتا جس کا بیان اوپر آیا، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے کہ ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے، اگر وہ چاہتا تو کفار قریش بغیر نشانیاں دیکھے بھی ایمان لے آتے، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے پہاڑوں کا چلنا، زمین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا، مردوں کا بول پڑنا اور دوسری نشانیاں ان کی حالت نہیں بدل سکیں گی۔ (29) آیت کے اس حصہ میں کافروں کے لیے بالعموم یا کفار مکہ کے لیے بالخصوص بہت بڑی وعید ہے کہ ان کے کفر اور رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مصیبت انہیں لاحق ہوتی رہے گی، قتل کیے جائیں گے یا قید کرلیے جائیں گے یا قحط سالی میں مبتلا ہوں گے یا اور کوئی عذاب انہیں آلے گا، یا ان کے قریب رہنے والوں پر کوئی عذاب نازل ہوگا جسے دیکھ کر ان کے دل ہل جائیں گے اور ان کا سکون چھن جائے گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ تحل کی ضمیر نبی کریم (ﷺ)کے لیے ہے، یعنی آپ ان کے علاقے کے قریب رہنے والی کسی قوم کا محاصرہ کریں گے جسے دیکھ کر ان کی جان مصیبت میں رہے گی جیسا کہ طائف والوں کا حال ہوا، اور ان کی یہی کیفیت رہے گی، یہاں تک کہ انہیں موت آجائے گی، اور اللہ کے وعدے کے مطابق جہنم کا عذاب انہیں آدبوچے گا۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ سے مراد کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت ہے، یعنی جب جہاد کی اجازت مل جائے گی تو رسول اللہ (ﷺ) اور ان کے اہل ایمان ساتھی میدان کار زار میں ان کے کفر کا انہیں مزا چکھائیں گے۔