سورة الرعد - آیت 11

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہر شخص کے آگے اور پیچھے اللہ کے مقرر کردہ نگراں ہوتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت [١٦] کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل [١٧] دے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر مصیبت ڈالنے کا ارادہ کرلے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، نہ ہی [١٨] اس کے مقابلے میں اس قوم کا کوئی مددگار ہوسکتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(11) اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ کچھ فرشتے لگا رکھے ہیں جو ہر جانب سے اس کا احاطہ کیے ہوتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق اس کے ایک ایک قول و عمل کو لکھتے ہیں۔ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا : اللہ کے فرشتے تمہارے ساتھ ہوتے ہیں، کچھ فرشتے رات میں ہوتے ہیں اور کچھ دن میں، اور صبح و عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں، رات کے فرشتے جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندے کو کس حال میں پایا (حالانکہ وہ خوب جانتا ہے) تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم جب ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان سے رخصت ہوئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (12) اللہ تعالیٰ کسی قوم سے اپنی نعمتوں کو اس وقت تک زائل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی حالت بدل نہیں لیتی، یعنی خیر و صلاح کی راہ سے منحرف ہوجاتی ہے اور معاصی اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگتی ہے، اور آدمی کبھی دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے عذاب و مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ بخاری نے زینب بنت جحش سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ کیا ہمارے درمیان نیک لوگوں کے ہونے کے باوجود ہم ہلاک کردیئے جائیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں جب گناہ کی کثرت ہوجائے گی۔