سورة البقرة - آیت 164

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ کچھ سوچتے سمجھتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لیے سمندروں میں چلتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے آسمان سے بارش نازل کرنے میں، جس سے وہ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے، اور اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق کو پھیلا دیتا ہے، نیز ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان تابع فرمان ہیں [٢٠٢] بے شمار نشانیاں ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

239: اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی اجمالی دلیل بیان کرنے کے بعد اس آیت میں تفصیلی دلائل کا ذکر فرمایا ہے، اور انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا ان نشانیوں میں غور تو کرو، کیا یہ اللہ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کے دلائل نہیں ہیں؟ آسمان کی بلندی، اس کی وسعت و پہنائی، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کی دنیا، زمین کی پستی، اس کا ہموار ہونا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کی آبادیاں، اور گوناگوں نفع بخش چیزیں، لیل ونہار کی باضابطہ گردش، گرمی، سردی، موسم کا اعتدال، رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں اور جہازوں کا سمندروں میں انواع و اقسام کے سامان لے کر چلنا، سمندروں اور ہواؤں کا اس کے لیے مسخر ہونا، آسمان سے بارش کا نزول، جس سے مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، اور مختلف الانواع نباتات اور کھانے کی چیزوں کا پیدا ہونا، زمین میں مختلف قسم کے جانور اور بنی نوع انسان کے لیے ان کی تسخیر، ہواؤں کا چلنا۔ ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی، شرقی اور غربی ہواؤں کا تنوع، اور بادلوں کا وجود جو بارش کا پانی لے کر اللہ کے حکم سے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہتے ہیں۔ یقیناً یہ ساری چیزیں اللہ کے وجود اور اس کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہیں اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے یہ نشانیاں کافی ہیں۔