سورة یوسف - آیت 110

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا) حتیٰ کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور لوگوں کو (بھی) یقین ہوگیا کہ ان سے جھوٹ [ ١٠٤] بولا گیا ہے تو پیغمبروں کے پاس ہماری مدد آگئی۔ پھر ہم جسے چاہیں بچا لیتے ہیں۔ تاہم مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب نہیں ٹالا جاسکتا

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(97) دعوت الی اللہ کی راہ میں ہر زمانے کے لوگوں نے انبیاء کو تکلیفیں پہنچائیں، لیکن بالآخر غلبہ اور کامیابی انبیاء ہی کو حاصل ہوئی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ انبیائے کرام لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی قومیں راہ راست پر نہیں آتی تھیں، تو ایک قسم کی ناامیدی ان کے دل میں آجاتی تھی اور وہ قومیں بھی سمجھنے لگتی تھیں کہ ان رسولوں نے ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا وہ جھوٹا تھا یا وہ جو دعوی کرتے تھے کہ اللہ اپنے انبیاء کی مدد کرے گا وہ جھوٹا دعوی تھا۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انبیاء گمان کرنے لگے کہ ان کا دل ان سے غلط کہا کرتا تھا کہ کافروں کے خلاف اللہ کی جانب سے ان کی مدد کی جائے گی، تو اچانک ہماری مدد ان تک آپہنچی، وہ قومیں ہلاک کردی گئیں، اور جن کو ہم نے چاہا انہیں نجات مل گئی، اور جب ہمارا عذاب کسی مجرم پر نازل ہوجاتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا ہے۔