وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو اس وقت ان کے باپ یعقوب نے کہا : اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بڈھا سٹھیا گیا (تو حقیقت یہ ہے کہ) میں یوسف کی بو محسوس [٩١] کر رہا ہوں
(81) جب بھائیوں کا قافلہ مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا، تو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے پوتوں اور دیگر افراد خانہ سے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، لیکن تم لوگ تو یہی کہو گے کہ بڑھاپے کی وجہ سے میری عقل متاثر ہوگئی ہے، یہ وحی الہی کے ذریعہ ان کے لیے اشارہ تھا کہ یوسف ابھی زندہ بخیر ہیں، اور یہ امید تو ان کے دل میں ہمیشہ ہی رہی، یوسف کے خواب کی تعبیر کا یہی تقاضا تھا، اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹوں کو بھی اللہ کی رحمت سے ناامید ہونے سے منع کیا تھا، جب مصیبت کے دن ختم ہونے والے ہوتے ہیں تو اللہ کے نیک بندوں کو اس کا احساس ہونے لگتا ہے۔