قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
یعقوب نے جواب دیا : (بات یوں نہیں) بلکہ تم نے ایک بات بناکر اسے بناسنوار کر پیش کردیا ہے۔ لہٰذا (اب) صبر [٨٠] ہی بہتر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ [٨١] ان سب کو میرے پاس لے آئے بلاشبہ وہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
(71) جب وہ لوگ کنعان پہنچے تو اپنے باپ سے وہی کچھ کہا جو ان کے بڑے بھائی نے سکھایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ بات کہ میرے بیٹے نے چوری کی ہے، تمہارے ذہن کی ایک پیداوار ہے اس نے حقیقت میں چوری نہیں کی ہے، بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ بنیامین کو کنعان سے مصر لے جانا، تم لوگوں نے پہلے سے سوچی ہوئی سازش تھی تاکہ اسے بھی یوسف کی طرح غائب کردو، اب تو میرے لیے صبر کرنا ہی بہتر ہے۔ اور یعقوب (علیہ السلام) کے مقام نبوت کے لائق یہی بات تھی، بخاری و مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا : صبر یہ ہے کہ آدمی پہلی چوٹ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرجائے۔