فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
پھر جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے : سب سے بڑے بھائی نے کہا ''یہ پتا ہے کہ تمہارے باپ نے اللہ کے نام پر تم لوگوں سے پختہ عہد لیا ہوا ہے۔ نیز تم اس سے پیشتر یوسف کے معاملہ میں بھی زیادتی کرچکے ہو۔ اب میں تو یہاں سے کبھی نہ جاؤں گا تاآنکہ میرا باپ مجھے حکم دے یا اللہ میرے [٧٧] لئے فیصلہ کر دے وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
(68) جب کوئی امید باقی نہ رہی تو لوگوں سے الگ ہو کر آپس میں سر جوڑ کر غور و خوض کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے، تو بڑے بھائی نے (جس کا نام غالبا روبین تھا) کہا کہ تم سب کو پتہ ہے کہ ہمارے باپ نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہم سے بڑا سخت عہد و پیمان لیا ہے کہ ہم ان کے لڑکے کو بحفاظت تمام ان کے پاس واپس پہنچائیں گے، اور ہم لوگ اس کے پہلے یوسف کے سلسلے میں جس عدم اہتمام کا مظاہرہ کرچکے ہیں وہ سب کو معلوم ہے، اس لیے اب میں مصر سے اسی وقت کنعان جاؤں گا جب میرے باپ مجھے اجازت دیں گے، یا اللہ تعالیٰ مصر سے میری روانگی کا فیصلہ کردے یا میرا بھائی بنیامین کسی طرح آزاد کردیا جائے اور اللہ بہرحال بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔