قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
برادران یوسف کہنے لگے : اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے بیشتر اس کا بھائی (یوسف) بھی [٧٤] چوری کرچکا ہے۔ یوسف نے (ان کے اس الزام کو) دل میں چھپائے رکھا اور ان پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا اور (زیر لب) کہنے لگے : تم بہت [٧٥] ہی برے لوگ ہو۔ یہ جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
(65) جب پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوگیا تو ان کے بھائیوں نے (عزیز کے سامنے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہم لوگ اس جیسے چور نہیں ہیں) کہا کہ اگر یہ چور نکلا تو اس کا بھائی بھی چور تھا، یوسف علی السلام نے ان کے اس جھوٹ پر ضبط سے کام لیا اور اپنے تاثرات کو ظاہر نہیں ہونے دیا اور دل میں کہا کہ تم کتنے برے لوگ ہو کہ خود یوسف کو اس کے باپ سے دھوکہ دے کرلے گئے تھے اور کنواں میں ڈال دیا تھا اور آج اس مظلوم و بے گناہ پر چوری کی تہمت دھرتے ہو، تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے۔