فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
جب اس ( زلیخا) نے ان کی مکارانہ [٢٩] باتیں سنیں تو انھیں بلاوا بھیج دیا اور ان کے لئے ایک تکیہ دار مجلس ضیافت تیار کی اور ہر عورت کے سامنے ایک ایک چھری رکھ دی [٣٠] اور یوسف سے کہا کہ تم ان کے سامنے نکل آؤ۔ جب ان عورتوں نے انھیں دیکھا تو (حسن میں) فائق تر سمجھا اور (پھل کاٹتے کاٹتے) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور بے ساختہ بول اٹھیں کہ یہ انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے
(29) عزیز مصر کی بیوی کو جب معلوم ہوا کہ شہر کی کچھ عورتیں اپنی مجلسوں میں یوسف پر اس کی فریفتگی کو موضوع سخن بنا رہی ہیں، تو اس نے ایک روایت کے مطابق شہر کی چالیس معزز عورتوں کو اپنے گھر میں دعوت دی، ان میں وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو اس کے بارے میں باتیں کرنے میں پیش پیش تھیں۔ انہیں ایک ایسی مجلس میں بٹھایا جس میں گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے، اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی، تاکہ اپنے سامنے رکھے ہوئے گوشت اور پھل کاٹ کر کھائیں، اس کے بعد یوسف سے ان کے سامنے آنے کو کہا، عورتیں انہیں دیکھ کر ان کے غیر معمولی حسن و جمال سے ایسا متاثر ہوگئیں کہ اپنا ہوش و خرد کھو بیٹھیں اور پھلوں کے بجائے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے، اور حیرت و استعجاب کی انتہا کو پہنچتے ہوئے پکار اٹھیں کہ ہمارے سامنے کوئی انسان نہیں، بلکہ آسمان سے کوئی نہایت حسین و جمیل فرشتہ اتر آیا ہے، جس کا غیر معمولی حسن ہماری آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہا ہے، اور ہمارے ہوش ٹھکانے نہیں رہے ہیں۔ عزیز کی بیوی نے یہ انتظام اس لیے کیا تھا تاکہ شہر کی عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ جس نوجوان کو اس نے ورغلانے کی کوشش کی تھی وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا پیکر حسن و جمال ہے جسے دیکھ کر کسی بھی عورت کا صبر کرجانا اور اپنے آپ پر قابو پالینا ناممکن سی بات ہے۔