وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
پھر ایک قافلہ آیا جس نے اپنے پانی لانے والے کو (پانی کی تلاش میں) بھیجا۔ اس نے (اس کنوئیں میں) اپنا ڈول لٹکایا تو بول اٹھا : بڑی خوشی کی بات ہے [١٧] یہاں تو ایک لڑکا ہے'' چنانچہ انہوں نے اسے بکاؤ مال سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے اللہ اسے خوب جانتا تھا
(19) ایک قافلہ جو شام سے مصر کی طرف جارہا تھا وہاں سے گزرا اور کنواں کے آس پاس پڑاؤ ڈالا، قافلہ والوں کے لیے پانی مہیا کرنا جن افراد کی ذمہ داری تھی، انہوں نے جب اپنا ڈول کنواں میں ڈالا، تو یوسف نے اسے پکڑ لیا، انہوں نے جھانک کر دیکھا تو وہ ایک لڑکا تھا، بہت خوش ہوئے اور یوسف کو سامان تجارت بنا لیا اور قافلہ والوں سے کہا کہ ہم نے کنواں والوں سے اسے خریدا ہے، انہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ نے آیت کے آخر میں دھمکی کے طور پر فرمایا کہ یوسف کے ان تمام حالات سے گزرنے کا جو لوگ سبب تھے اللہ انہیں خوب جانتا ہے، کہ کس طرح انہوں نے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو طوق غلامی پہنا دیا۔