اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
(لہٰذا) یا تو یوسف کو مار ڈالو'یا اسے کہیں دور پھینک دو (اس طرح) تمہارا باپ تمہاری ہی طرف متوجہ رہے گا پھر اس کے بعد تم نیک لوگ [٨] بن جانا‘‘
(9) بھائیوں کو خواب کی خبر ملی تھی کہا جاتا ہے کہ یوسف نے بچپن کی سادگی میں آکر خود ہی ان لوگوں سے بیان کردیا تھا۔ چنانچہ ان کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے خلاف سازش کرنے لگے، انہوں نے شاید یہ بات یوسف کا مذاق اڑاتے ہوئے بھی کہی تھی کہ دیکھتے ہیں اس کا خواب کیا کرشمہ دکھلاتا ہے، ان کا گمان تھا کہ جب وہ یوسف کو قتل کردیں گے یا کسی ایسی نامعلوم جگہ میں اسے ڈال دیں گے جس کا علم ان کے باپ کو نہیں ہوگا، اور نہ یوسف وہاں سے خود واپس آسکیں گے تو ان کے باپ یوسف کے بجائے انہیں اپنی پوری محبت دینے لگیں گے، اور وہ لوگ بعد میں اپنے گناہ سے اللہ کے سامنے تائب ہوجائیں گے، ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ان کا یہ ظالمانہ فیصلہ کئی بڑے گناہوں کا پیش خیمہ تھا، انہوں نے قرابت و صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں رکھا، والدین کی نافرمانی کی، چھوٹے بچے پر رحم نہیں کھایا جس نے کوئی غلطی نہیں کی تھی، اور بوڑھے باپ کے جذبات کی قدر نہیں کی، اور ان کے چھوٹے بچے کو ان سے بے رحمی کے ساتھ جدا کردینا چاہا، اللہ انہیں معاف کرے۔