وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں
15۔ سچے مسلمانوں اور کھلم کھلا کافروں کی حالت بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے اب منافقین کی حالت بیان کرنی شروع کی، جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے، لیکن درحقیقت وہ کافر تھے۔ دنیاوی مصالح کی خاطر اسلام کا اعلان کردیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے، تو اس وقت تین قسم کے لوگ وہاں رہتے تھے۔ اوس و خزرج کے انصار مسلمان، اوس و خزرج کے وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا اور یہود تین قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بنو قینقاع (حلفائے خزرج) اور بنو نضیر و بنو قریظہ (حلفائے اوس) رسول اللہ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد اوس و خزرج کے بہت سے عرب اسلام میں داخل ہوگئے اور بہت ہی تھوڑے یہودیوں نے اسلام کو قبول کیا، ابتدائے ایام مدینہ میں منافقین نہیں پائے گئے، کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں کا رعب و دبدبہ نہ تھا، بلکہ حالات کے تقاضے کے مطابق نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہودیوں اور بہت سے عرب قبائل سے مصالحت کر رکھی تھی۔ واقعہ بدر کے بعد مسلمانوں کی ہیبت کافروں پر طاری ہونے لگی تو عبداللہ بن ابی بن سلول، جو قبیلہ خزرج کا تھا اور جسے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آمد سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے، جب اس نے دیکھا کہ اب تو اسلام غالب ہونے لگا اور مسلمانوں کے قدم جم گئے، تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیا، کچھ یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اس طرح منافقین وجود میں آئے، اس کے بعد مدینہ اور آس پاس کے بہت سے دیہاتیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اور منافقین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ 16۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہی منافقین کی حالت اور ان کے اوصاف بیان کیے ہیں تاکہ مسلمان ان سے دھوکہ نہ کھائیں، اور ان جیسی منافقانہ صفات اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں۔ 17۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی کہ یہ لوگ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں، اس لیے کہ ایمانِ حقیقی یہ ہے کہ زبان سے جو کچھ کہا جا رہا ہے، دل اس کی تصدیق کرے۔