وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ
اور آپ کے پروردگار کے یہ شایان نہیں کہ وہ بستیوں کو ناحق [١٣٠] تباہ کردے حالانکہ وہاں کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں
(95) اس آیت کریمہ کی تفسیر دو طرح سے بیان کی گئی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک قوم آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتی ہے اور آپس میں ظلم و زیادتی نہیں کرتی، قوی کمزور کا حق غصب نہیں کرتا، تو محض شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا قول ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہتی۔ جب کوئی قوم یا کوئی حکومت ظالم بن جاتی ہے تو اللہ اسے ختم کردیتا ہے، دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ جب تک کوئی قوم بھلائی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے اللہ تعالیٰ محض شرک کی وجہ سے اسے ہلاک نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ کسی قوم میں تمام برائیوں کی جڑ یہ ہے کہ اس کے اصحاب عقل و خرد لوگوں کو بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بند کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران کی آیت (104) میں فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں، اور نبی کریم (ﷺ) کی صحیح حدیث ہے کہ اگر لوگ برائی کو دیکھ کر خاموش رہیں گے اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، تو بہت ممکن ہے کہ اللہ کا عذاب ان کو پکڑ لے۔