قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو، اپنا رخ اسی کی طرف پھیر لیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب (تورات) دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب کی طرف [١٧٩] سے ہے اور بالکل درست ہے۔ (اس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔
211: یہ آیت اگرچہ تلاوت کے اعتبار سے متاخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے متقدم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ (ﷺلم) مدینہ منورہ آنے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ کاش ان کا قبلہ مسجد حرام ہوجاتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور رسول اللہ (ﷺ) کی تمنا پوری ہوئی۔ 212: مسجد حرام سے اس طرح اشارہ ہے کہ جہت کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے، نہ کہ خاص کعبہ کیطرف 213: یعنی بحر و بر میں جہاں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، اور خطاب خاص کے بعد خطاب عام سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام، اور یہ کہ مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوگا، نماز میں رخ کعبہ کی طرف کرے گا۔ 214: یہود اپنے انبیاء کی تصریحات کے ذریعہ جو ان کی کتابوں میں موجود تھیں، رسول اللہ (ﷺ) اور ان کی امت کی صفات کو اچھی طرح جانتے تے، یہ بھی جانتے کہ دین اسلام جو انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری دین ہوگا، وہ محمد (ﷺ) اور ان کی امت کا دین ہوگا، اور ان صفات محمدیہ کے ضمن میں یہ بھی پڑھتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، لیکن حسد و عناد کی وجہ سے جہاں انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کی دوسری صفات کا انکار کیا، وہاں کعبہ کے قبلہ ہونے کا بھی انکار کیا، اسی لیے اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ اللہ ان کے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔