سورة ھود - آیت 7

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش [١١] پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور اگر آپ انھیں کہیں کہ تم موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر فوراً کہنے لگتے ہیں کہ ’’یہ تو صریح [١٢] جادو ہے‘‘

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(7) اس آیت میں بھی گزشتہ مفہوم کی تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ عظیم ترین قدرتوں کا مالک ہے، اور اس کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو (اتوار سے جمعہ) چھ دنوں میں پیدا کیا ہے، یہ مضمون سورۃ الاعراف آیت (54) اور سورۃ یونس آیت (4) میں گزر چکا ہے۔ اور الحدید آیت (4) الفرقان آیت (59) السجدہ آیت (4) اور ق آیت (38) میں بھی آئے گا۔ یہ دن یا تو دنیا کے دنوں کے مانند ہوں گے، یا ہر ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا، جیسا کہ سورۃ الحج آیت (47) میں آیا ہے۔ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَĬ یعنی تمہارے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی کو پیدا کیا، اس کے بعد عرش کو پیدا کیا وار ان دونوں کے بعد آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ امام احمد اور ترمذی نے ابو رزین العقیلی صحابی سے روایت کی ہے کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا؟ تو آپ نے فرمایا : ایسی جگہ جس کے نیچے ہوا تھی اور اوپر بھی ہوا تھی، اس کے بعد اللہ نے عرش کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اس لیے پیدا کیا، تاکہ اس کے بندے زمین پر سکونت پذیر ہوں، اس کی گوناگوں نعمتوں سے مستفید ہوں، اور ایک اللہ کی عبادت کریں، نیز نیکی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، تاکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے۔ آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔ اکثر عملا نہیں کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک حسن عمل کا اعتبار ہے، کثرت عمل کا نہیں، اور کوئی بھی عمل اللہ کی نگاہ میں احسن اسی وقت ہوگا، جب وہ اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو، اور رسول اللہ (ﷺ) کی سنت و شریعت کے مطابق ہو، یعنی اگر دونوں شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہوگی تو وہ عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوگا۔ (8) چونکہ اوپر اچھے اور برے اعمال، اور قیامت کے دن ان کی جزا و سزا کا ذکر آیا ہے، اسی مناسبت سے یہاں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی بات آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! اگر آپ کفار مکہ سے کہیں گے کہ تم لوگ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے، تاکہ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے، تو وہ کہیں گے کہ اے محمد ! تم جو کچھ کہہ رہے ہوجادو کی طرح بے بنیاد اور باطل فکر ہے، جس پر یقین نہیں کیا جاسکتا ہے، اور اگر آیت میں اشارہ قرآن کی طرف مانا جائے، تو معنی یوں ہوگا کہ یہ قرآن جو موت کے بعد اٹھائے جانے کا تصور پیش کرتا ہے کھلا جادو ہے۔