وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر اللہ بھی لوگوں کو برائی پہنچانے میں ایسے ہی جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی کو جلد از جلد چاہتے ہیں تو اب تک ان کی مدت (موت) پوری ہوچکی ہوتی (مگر اللہ کا یہ دستور نہیں) لہٰذا جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے انہیں ہم ان کی سرکشی میں بھٹکتے رہنے کے لئے کھلا چھوڑ [١٧] دیتے ہیں۔
(11) مکی زندگی کے جس دور میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت مشرکین مکہ کا عجیب حال تھا شدت استکبار اور ذہنی بوکھلاہٹ میں بار بار رسول اللہ سے کہتے کہ اگر تم اتنے ہی سچے ہو اور ہم اللہ کے نزدیک اتنے مبغوض ہیں تو جس عذاب کی بات تم بار بار کرتے ہو ہم پر کیوں نہیں نازل ہوجاتا؟ یہ کفار مکہ کی غفلت کی انتہا تھی کہ جب بھی رسول اللہ ان سے کوئی خیر کی بات کرتے تو جلد عذاب آجانے کا مطالبہ کر بیٹھتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے ایسا نہیں کیا، بلکہ انہیں توبہ کی مہلت دی اور انہیں ہلاک نہیں کیا کہ شاید ان کی ذریت میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ پر ایمان لے آئیں، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائیں گے، اللہ انہیں کفر و طغیان میں یونہی بھٹکتا ہوا چھوڑ دے گا۔