إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ [٦] پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ یہ اس انکار حق کا بدلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے
(6) ہر شخص اپنی دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد موت کی راہ سے گزر کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے ضرور حاضر ہوگا، یہ اس کا برحق وعدہ ہے جو بدل نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ انسان کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے، پھر اس کی مدت عمر پوری ہونے کے بعد اس پر موت طاری کردیتا ہے، اور جب قیامت آئے گی تو اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ (7) یہاں سے آخر آیت تک موت کے بعد دوسری زندگی کی علت بیان کی گئی ہے، یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ آدمی کو اس کے اچھے یا برے عمل کا بدلہ نہ ملے، جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عمل کی جگہ بنایا ہے، تو لازم تھا کہ اس عمل کے جزا و سزا کی جگہ ہوتی۔ اسی لیے اللہ نے آخرت کی زندگی بنائی تاکہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے، اور یہ کوئی بعید از عقل بات بھی نہیں کہ اللہ اس مکافات عمل کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے، کیونکہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ یقینا انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔