سورة التوبہ - آیت 79

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(ان منافقوں میں کچھ ایسے ہیں) جو خوشی سے صدقہ کرنے والے [٩٤] مومنوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور ایسے (تنگدست) مسلمانوں پر بھی جو اپنی مشقت (کی کمائی) کے سوائے کچھ نہیں رکھتے۔ یہ منافق ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ ان کا مذاق انہی پر ڈال دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

60۔ منافقین ہر حال میں مسلمانوں میں عیب لگاتے تھے، اگر کوئی زیادہ مال اللہ کی راہ میں دیتا تو کہتے کہ یہ ریا کار ہے، اور اگر کوئی مزدور اپنی مزدوری لا کر صدقہ کے مال میں جمع کردیتا تو کہتے کہ اللہ کو اتنے تھوڑے مال کی کیا ضرورت تھی، محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے صدقہ کی ترغیب دلائی تو عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار صدقہ کیا، اور عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجور صدقہ کیا، تو منافقین نے طنز کیا کہ یہ محض ریا کاری ہے، اور ابو عقیل نے اپنی مزدوری ایک صاع کھجورلا کر صدقہ کے کھجوروں میں ڈال دیا تو منافقین نے ان کی خوب ہنسی اڑائی اور کہا کہ اللہ ابو عقیل کے ایک صاع کھجور کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کا یہ انجام بتایا کہ وہ اپنے مؤمن بندوں کے استہزاء کا انتقام ضرور لے گا، منافقین کو رسوا کرے گا، اور اپنے مؤمن بندوں کو اونچا کردکھائے گا، اور آخر میں ان منافقین کو دردناک عذاب ملے گا۔