سورة التوبہ - آیت 3

وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لئے اعلان (کیا جاتا) ہے کہ : اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے برئ الذمہ ہیں۔ لہٰذا اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم اعراض کرو تو خوب جان لو کہ تم اللہ کو عاجز [٣] نہیں کرسکتے۔ اور (اے نبی) ان کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

پہلی آیت میں اور اس آیت کے معنی میں فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں مشرکوں سے براءت ثابت ہوجا نے کی خبر دی گئی ہے جبکہ اس آیت میں ثابت شدہ براءت کے اعلان کو واجب بتایا گیا ہے اسی طرح براءت کا تعلق ان مشرکوں سے تھا جن کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ تھا اور اعلان براءت تمام لوگوں کے لیے عام تھا تاکہ سب کو خبر ہوجائے۔ )یوم حج اکبر) سے مراد ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے۔ صحیحین میں ہے کہ ابوبکر اور علی رضی اللہ عنہما نے براءت کا اعلان یوم النحر یعنی دس تاریخ کو کیا تھا۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: حج اکبر کا دن قربانی کا دن ہے۔ ابو ہریرۃ اور بہت سے صحابہ کی یہی رائے ہے۔