وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ
(اہل کتاب) کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ بلکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ ان سب کا مالک ہے [١٣٧] اور یہ سب چیزیں اس کی مطیع فرمان ہیں
170: اس آیت میں یہود و نصاری اور مشرکین عرب کی تکذیب کی گئی ہے، جنہوں نے عزیر و مسیح کو اللہ کا بیٹا تصور کیا، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا، اللہ نے فرمایا کہ (سبحنہ) یعنی اللہ کی ذات ان باطل دعووں سے پاک ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے مملوک اور بندے ہیں، اور اس کے حضور عجز و انکساری کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں، بندوں میں سے کوئی اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، اولاد تو دو متناسب ذاتوں کے ارتباط سے پیدا ہوتی ہے، اللہ کا کوئی شریک اور نظیر نہیں، اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے، پھر اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اذیت کی باتیں سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں، پھر بھی وہ انہیں روزی دیتا ہے اور عافیت سے نوازتا ہے (قانتون) یعنی تمام مخلوق اس کے زیر تصرف ہے، اور اس کی عبادت میں لگی ہوئی ہے۔