يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بکثرت [٥٠] یاد کیا کرو۔ تاکہ تم کامیاب رہو
(39) مو قع محل کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے مند رجہ ذیل تین آیتوں میں مسلمانوں کو چند اہم جنگی تعلیمات دی ہیں تاکہ کفارومشر کین سے جنگ میں انہیں فتح و کامرانی ملے : 1۔ جب میدان جنگ میں مسلمانوں کا کافروں سے آمنا سامنا ہو تو صبر واستقامت سے کام لیں اور شمن کے سامنے چٹان کی طرح اڑجائیں اس لیے کہ بزدلی فرار اور دشمن کے سامنے جزع فزع شکست فاش کا سبب ہوتا ہے۔ صحیحین میں عبد اللہ بن ابی اوفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک جنگ کے موقع سے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا اے لوگو دشمن کی ملاقات کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو، نیز جب دشمن سے ملاقات ہو جائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سا یہ میں ہے۔ 2۔ میدان جنگ اور حالات جنگ میں اللہ کو کثرت سے یاد کریں کبھی بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہوں اس لیے کہ ذکر الہی کی برکت سے اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے مصیبتیں چھٹ جاتی ہیں اور فتح وکامرانی مسلمانوں کے قدم چومتی ہے سو رہ بقرہ میں طالوت جالوت کا واقعہ گذر چکا ہے جب طالوت مسلمانوں کے ساتھ جالوت کے خلاف میدان کارزار میں آئے تو سب نے مل کر اللہ سے دعا کی İ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ Ĭاے ہمارے رب ! ہمیں صبر عطا فرما، اور ثابت قدمی دے، اور قوم کفار کے خلاف ہماری نصرت فرما ( البقرہ:250) اور نبی کر یم (ﷺ) نے معر کہ بدر سے پہلے اللہ کے سامنے اتنی منا جات اور اتنی دعائیں کیں کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گر جاتی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد آیت (28) میں فرمایا ہے İأَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ Ĭ کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے، اور مجاہد کو میدان جنگ میں سب سے زیادہ اطمینان قلب کی ضروت ہوتی ہے۔ 3۔ ہر حال میں لشکر اسلام کے مد نظر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مجاہدین اپنے قائد کی اطاعت کو ضروری سمجھیں گے۔ 4۔ لشکر اسلام میں پھوٹ نہ پڑنے پائے ورنہ مسلمانوں کی قوت بکھر جائے گی اور دشمن غالب آجائیں گے۔ 5۔ مسلما نوں کی جنگ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہوتی ہے اس لیے مجاہدین کے پیش نظر کوئی دنیاوی مقصد مثلا ریاکاری یا اظہار شجاعت وغیرہ نہ ہو ور نہ اللہ کی تائید حاصل نہیں ہو گی جیسا کہ ابو جہل اور دیگر کفار قریش نے کیا کہ میدان بدر میں ان کے پہنچنے سے پہلے ابو سفیان کے قاصد نے آکر ان سے کہا کہ اب تم لوگ لوٹ جاؤ کیونکہ ہمارا قافلہ اب مسلمانوں کی زد سے باہر نکل گیا ہے تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اندر تک ضرور جائیں گے وہاں پڑاؤ ڈالیں گے خوب گوشت کھائیں گے اور شراب پئیں گے اور رقص وسرور کی محفلیں جمائیں گے تاکہ عرب کے لوگوں کو ہماری شان وشوکت کا پتہ چلے اور ہمیشہ کے لیے ہمارا رعب ان کے دلوں پر بیٹھ جائے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں اور فرشتوں کے ہاتھوں انہیں موت کا تلخ جام پینا پڑا اور ان کی ماؤں اور بہنوں نے ان پر نو حہ خانی کی آیت (47) میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے۔