وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم تھوڑے سے تھے، زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور تمہیں [٢٦] یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں کہیں اچک کر نہ لے جائیں پھر اللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کی اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط کیا اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں گا تاکہ تم شکرگزار [٢٧] بنو
(20) مکہ میں جب لوگوں نے اسلام کو پہلے پہل قبول کیا وہ بڑی آزمائش سے گذرے ان کی تعداد تھوڑی تھی، ڈرتے تھے کہ کہیں اعدائے اسلام ایک ہی حملہ میں انہیں ختم نہ کردیں تو اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھائی انہیں مدینہ میں پناہ دی انہیں قوت عطا کی اور میدان بدر میں فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی اور مال غنیمت کو ان کے لیے حلال بنا کر ان کی تنگد ستی دور کی آیت میں صحابہ کرام کے انہی حالات کی طرف اشارہ ہے تاکہ وہ انہیں یاد کر کے اللہ کا احسان مانیں اور اس کا شکر ادا کریں۔ قتادہ بن دعامہ سیدوسی نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں کہا ہے کہ عرب والے سب سے ذلیل تھے، سب سے زیادہ بھوکے تھے سب سے زیادہ ننگے تھے اور سب سے زیادہ گمراہ تھے، اللہ کی قسم اہل زمین میں ان سے زیادہ گھٹیا اور کوئی قوم نہیں تھی، یہاں تک کہ اسلام آیا جس کے ذریعہ اللہ نے انہیں اپنے وطن میں قرار دیا اور ان کی روزی میں وسعت دی اور انہیں لوگوں کا بادشاہ بنادیا، اے عرب کے لوگو ! یہ سب کچھ تمہیں اسلام کے ذریعہ ملا ، اس لیے تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو، اس لیے کہ تمہارا رب منعم ہے اور شکر کو پسند کرتا ہے اور جو شکر ادا کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے۔