وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کو بارہ جماعتیں [١٦٢] ہی بنا دیا تھا۔ اور جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اسے وحی کی کہ اس چٹان پر اپنا عصا مارو۔ تو اس چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ (اور) ہر قبیلہ نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔ نیز ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا [١٦٣] (اور فرمایا) یہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور ان لوگوں نے ہمارا تو کچھ بھی نہ بگاڑا بلکہ خود اپنے آپ [١٦٤] پر ہی ظلم کر رہے تھے
(95) یعقوب (علیہ السلام) کے بارہوں بیٹوں کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولا د میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت دی ان کی تعداد کثرت سے بڑھتی گئی، اور ان کے طبائع وعادات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے گئے، اسی لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ انہیں مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے، اور ہر جماعت کا ایک نگران مقرر کردیا جائے تاکہ ہر جماعت اپنے الگ الگ نظم ونسق کے مطابق زندگی گزارے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے، بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا یہ ایک احسان تھا۔ (96) یہاں سے آخر آیت تک اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے دیگر تین احسانات کا ذکر کیا ہے، پہلا احسان یہ کہ اللہ نے بارہوں قبائل کے لیے پانی کا انتظام کیا، دوسرا احسان یہ کہ دھوپ سے بچنے کے لیے ان کے پڑاؤ کے اوپر بادل کو لاکر ٹھہرادیا، اور تیسرا حسان یہ کہ ان کے کھانے کے لیے آسمان سے من سلوی بھیج دیا، یہ سب باتیں تفصیل کے ساتھ سورہ بقرہ آیت (57) سے لے کر آیت (60) تک بیان کی جا چکی ہیں۔