وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے مقررہ وقت اور جگہ پر آگیا اور اس سے اس کے پروردگار [١٣٨] نے کلام کیا۔ موسیٰ نے عرض کیا: ’’پروردگار! مجھے اپنا آپ دکھلا دیجیے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔ پھر جب انہیں کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے : تیری ذات پاک ہے۔ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں
(74) جب موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف ہوا تو شدت شوق اور غایت محبت میں اللہ تعالیٰ کی دید کا سوال کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اس دنیا میں آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے ہیں، اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ اس پہاڑ کو دیکھئے، اگر وہ میری تجلی کی تاب لے آئے اور اپنی جگہ باقی رہ جائے تو آپ مجھ دیکھ سکیں گے، چنانچہ اللہ کی تجلی پہاڑ پر ظاہر ہوئی تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، اور اپنی جگہ پر باقی نہ رہ سکا، اور موسیٰ (علیہ السلام) اس منظر کی تاب نالاکر بے ہوش ہوگئے تو اللہ کی پاکی بیان کی اور دوبارہ ایسا سوال کرنے سے تو بہ کیا۔ معتزلہ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا اور آخرت کہیں بھی نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن یہ قول بالکل ہی ضعیف ہے، اس لیے کہ نبی کریم (ﷺ) کی متو تر احادیث سے ثابت ہو ہے کہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے ،، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قیامہ آیات (22/23) میں فرمایا ہے، کہ اس دن بہت سے چہرے شاداب ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے "۔