قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ
وہ موسیٰ سے کہنے لگے : ’’تمہارے آنے سے پہلے بھی ہمیں دکھ دیا جاتا تھا اور تمہارے آنے کے بعد بھی دیا جارہا ہے‘‘ موسیٰ نے جواب دیا : ’’عنقریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک [١٢٦] کردے گا اور اس سر زمین میں تمہیں خلیفہ بنادے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘
(67) بنی اسرا ئیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس سرزمین پر ہم تو پریشان ہی رہے ہیں آپ کی ولادت سے پہلے ہمارے بچوں کو اس لیے قتل کیا گیا کہ کہیں موسیٰ نہ پیدا ہوجائے جس کے ہاتھوں فرعون کی مملکت کا خاتمہ ہونا تھا، اور اب جب آپ نبی مرسل بن کر آئے ہیں تب بھی ہمارے بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، تاکہ ہمارا وجود ہی ختم کردیا جائے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے جس بشارت کی طرف اشارہ کیا تھا، اس کی صراحت کردی کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرے گا، اور تمہیں زمین کی سیادت عطا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس وعدے کو سچ کر دکھا یا، داؤد وسلیمان مصر کے بادشاہ ہوئے، اور یوشع بن نون کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوا اور اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں ڈبو دیا، اور اسرائیلیوں کو ان سے نجات دلائی۔