وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
اور ہماری کون سی بات تجھے بری لگی ہے بجز اس کے کہ جب ہمارے پاس پروردگار کی نشانیاں آگئیں تو ہم ان پر [١٢٢] ایمان لے آئے'' (پھر انہوں نے دعا کی کہ) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر [١٢٣] کا فیضان کر اور اس حال میں موت دے کہ ہم فرمانبردار ہوں‘‘
(64) یعنی جو تمہارے نزدیک ہمارا عیب ہے، وہی سب سے بڑی خوبی ہے، اس کے بعد جادوگروں نے اپنے لیے ثابت قدمی اور خاتمہ بالخیر کی دعا کی اور فرعون سے کہا : یعنی اب تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تیرا حکم صرف اسی دنیاوی زندگی میں چلے گا، ہم تو اس امید میں اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے گا، اور جو کچھ ہم سے زبر دستی کرا یا ہے وہ تو جادو ہے اور اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہ، (طہ :72/73) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ( اللہ کی مشیت دیکھئے کہ) صبح کو وہ لوگ جادوگر تھے، اور شام کو اللہ کے نیک اور شہید بندے بن گئے۔