قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس قوم کے متکبر سرداروں نے کہا : شعیب ! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر [٩٣] تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہوگا شعیب (علیہ السلام) نے کہا : خواہ ہم اسے ناپسند کرتے ہوں تو بھی؟
(51) شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی دعوت توحید و اصلاح قبول کرنے سے انکار کردیا، اور انہیں اور مسلمانوں کو شہر بدر کردینے کی دھمکی دی، تو انہوں نے ان کی طرف سے ناامید ہو کر اللہ سے دعا کی اے اللہ ! تو ہمارے اور ان کے درمیان اب فیصلہ کردے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے ایک ایسی بارش بھیجی جس میں آگ کے شرارے تھے، اور اس کے ساتھ آسمان سے ایک چیخ اٹھی، اور ان کے قدموں تلے زمین ہلنے لگی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی روحیں پر واز ہوگئیں اور ان کے جسم ڈھیر ہوگئے، اور ایسے ہوگئے جیسے وہاں پہلے ان کا وجود بھی نہیں تھا، جبکہ پہلے استکبار میں آکر اسی سرزمین سے انہوں نے شعیب اور مسلمانوں کو نکالنے کی دھمکی دی تھی، عذاب آجانے اور ان سب کے ہلاک ہوجا نے کے بعد جب شعیب (علیہ السلام) وہاں سے گذرے تو ان کی لاشوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے میری قوم ! میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور تمہارے ساتھ خیر خواہی کا جو تقاضا تھا وہ پورا کردیا تھا، لیکن تم نے کفر کی ہی راہ اختیار کی، اس لیے اب مجھے تمہارا یہ انجام دیکھ کر کوئی افسوس نہیں ہے، اور شعیب (علیہ السلام) کا ان مردوں سے یہ خطاب ویسا ہی تھا جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) نے جنگ بدر میں کفار قریش کے مقتولین کو خطاب کر کے کہا تھا، جب لاشوں کو ایک کنواں میں ڈال دیا گیا تھا، اور عمر بن خطاب (رض) سے کہا تھا کہ یہ لوگ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے ہیں۔