قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آپ ان یہود سے کہئے کہ اگر آخرت کا گھر دوسرے تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی [١١٢] لیے مخصوص ہے اور اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر مرنے (اور مر کر فوراً اسے حاصل کرنے) کی آرزو تو کرو
149: یہود دعوی کرتے تھے کہ جنت صرف ان کے لیے ہے، دوسرے لوگ اس میں داخل نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو تاکہ تم جلد از جلد دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر جنت کی راحتوں کو پالو، ابن جریر نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آیت میں دعوت مباہلہ ہے،۔ اور ابن عباس (رض) سے یہی مروی ہے۔ اس قول کے پیش نطر آیت کی تفسیر یوں ہوگی کہ اے میرے رسول ! آپ یہودیوں سے کہئے کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں میں سے جھوٹی جماعت کو موت دے دے، چنانچہ جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان سے ایسی دعا کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں اپنے گناہوں کا علم تھا، اور اس کی خبر خود قرآن کریم نے دے دی کہ وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ امام بخاری وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ اگر اس دعوت مباہلہ کے بعد یہود موت کی تمنا کرتے تو سب کے سب مرجاتے، اور جہنم میں اپنا ٹھکانا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔