سورة البقرة - آیت 2

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک [٢] کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت [٣] ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی وہ کتاب عظیم جو حقیقی معنوں میں کتاب ہے، اس لیے کہ اس میں علم و حکمت کے ایسے خزانے اور ایسا کھلا ہوا حق بیان کیا گیا ہے جو اگلی کتابوں میں موجود نہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہے، کیونکہ عرب بلاغت کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کے باجود قرآن جیسی ایک چھوٹی سورت لانے سے عاجز رہے، تو کوئی عقل مند آدمی اس کے اللہ کی کتاب ہونے میں شبہ نہیں کرے گا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : متقی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو راہ ہدایت پر نہ چلنے کی صورت میں اللہ کے عقاب سے ڈرتے ہیں، اور دین اسلام کی تصدیق اور اس پر چلنے کی صورت میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے کسی نے تقوی کا معنی پوچھا تو کہا کہ کبھی خار دار راستہ پر چلے ہو، اس نے کہا : ہاں، تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس طرح راستہ طے کیا؟ اس نے کہا: جب کانٹا دیکھتا تو اس سے الگ ہوجاتا۔ تو انہوں نے کہا یہی تقوی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ھدی کا استعمال دو معنوں میں ہوا ہے : پہلا معنی رہنمائی کرنا اور راہ حق کو واضح کردینا ہے ہے اس اعتبار سے قرآن کریم راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے ھدی ہے، کہ ان کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔ یعنی ہم نے ثمود کی حق کی طرف رہنمائی کی، لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کرلیا۔ دوسرا معنی : بندہ کے دل میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور توفیق دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ یعنی یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (راہ حق پر چلنے کی توفیق) دی، پس آپ انہی کی راہ کی اتباع کریں۔ اس آیت کریمہ میں ہدایت کے دونوں معنی مراد ہیں، اس لیے کہ اہل تقوی کو دونوں ہدایتیں حاصل ہوتی ہیں، قرآن ان کی رہنمائی کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ راہ حق پر چلنے کی توفیق بھی انہیں ملتی ہے۔