يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اے بنی آدم! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ [٢٩] ہو کر جاؤ اور کھاؤ، پیو لیکن اسراف [٣٠] نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
[٢٩] ٭نمازی کے لباس میں کتنے کپڑے ہوں :۔ یہاں زینت سے مراد لباس ہے اور یہ لباس صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے تاکہ زینت کا باعث ہو اس لباس میں کون کون سا کپڑا شامل ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ عمر و بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صرف) ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ، باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کچھ نہ ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ ، باب إذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر میں ایک طرف لٹکایا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پردہ دیکھ کر) فرمایا : ’’یہ اپنا پردہ یہاں سے ہٹا لو اس کی تصویریں میری نماز میں حارج ہوتی ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ان صلی فی ثوب مصلب او تصاویر۔۔ ) ٤۔ ابو مسلمہ سعید بن یزید ازدی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ہاں۔‘‘ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب الصلوۃ فی النعال) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :۔ ١۔ کم از کم ایک کپڑے میں بھی نماز ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ اتنا بڑا ہو کہ مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈالنے کے بعد بھی دونوں طرف پنڈلیوں تک بدن ڈھانپ سکتا ہو۔ ٢۔ دونوں کندھوں پر کپڑا ہونا ضروری ہے، سر پر کوئی کپڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ٣۔ کوئی کپڑا ایسے نقش و نگار والا یا تصویروں والا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرلے۔ ٤۔ زیادہ کپڑوں کی کوئی حد نہیں، پگڑی یا ٹوپی وغیرہ کا تو ذکر کیا، جوتوں سمیت بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کا تلا صاف ستھرا ہو اور جوتوں سمیت نماز گھروں میں بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مساجد میں بھی جیسا کہ بالخصوص نیا جوتا پہنتے وقت شکرانہ کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے واضح احکام کے باوجود بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے ایک فریق اس انتہا کو چلا گیا کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں اور دوسرا فریق دوسری انتہا کو چلا گیا اس نے اس مسئلے کو محض جواز تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے اپنا شعار بنا لیا۔ پہلے فریق کی غلط روش تو واضح ہے کیونکہ حالت احرام میں ساری نمازیں اور طواف وغیرہ بھی ننگے سر ہی ادا ہوتے ہیں اگر ننگے سر نماز ہو ہی نہیں سکتی تو حالت احرام میں یقیناً سر پر کوئی کپڑا رکھنے کی تاکید کردی جاتی۔ جیسا کہ عورتوں کے لیے ایسا ہی حکم ہے رہا دوسرا فریق تو اس کی وجہ استدلال درج ذیل حدیث ہے :۔ ٭ ننگے سر نماز کا مسئلہ : محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ ’’جابر (بن عبداللہ) رضی اللہ عنہ نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جسے اپنی گدی پر باندھ لیا اور ان کے کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے کسی (عبادہ بن ولید) نے ان سے کہا تم (کپڑے ہوتے ہوئے) ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہو؟ ‘‘ جابر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یہ اس لیے کہ تیرے جیسا بے وقوف مجھے دیکھ لے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم لوگوں میں سے کس کے پاس دو کپڑے تھے؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ ، باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے کپڑے پاس ہوتے ہوئے صرف ایک کپڑے میں (یعنی ننگے سر) نماز ادا کی، ان کا یہ روزمرہ کا معمول نہیں تھا۔ ورنہ سائل کو ایسا سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ٢۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ کام عمداً اس لیے کیا کہ ناواقف لوگوں پر واضح ہوجائے کہ صرف ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے اگرچہ سر ننگا ہی رہے۔ ٣۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بھی بتا دی کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اکثر لوگوں کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان تصریحات کا ماحصل یہ ہے کہ جواز کی حد تک ننگے سر نماز ادا کرنے میں نہ کوئی کلام ہے اور نہ قباحت لیکن اگر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ موجود ہو تو اسے پہننا ہی افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول تھا کیونکہ سر ڈھانپنا بھی زینت کا ایک حصہ ہے، لہٰذا ننگے سر نماز پڑھنا شعار نہ بنا لیا جائے۔ ہاں کپڑوں کی موجودگی میں بھی کبھی کبھار کسی ضرورت یا مصلحت کی غرض سے ننگے سر نماز ادا کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ [٣٠] ٭کھانے پینے میں اسراف کا نقصان :۔ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے جملہ میں طب کا آدھا علم بیان فرما دیا ہے کیونکہ اکثر امراض خوراک کی زیادتی یا اس میں بے احتیاطی ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسراف کا مطلب بسیار خوری بھی ہوسکتا ہے۔ وقت بے وقت کھانا اور بدپرہیزی بھی۔ یہ تو اسراف کے طبعی نقصانات ہیں اور جو اخلاقی نقصانات ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں مثلاً جو انسان اپنے ہی کھانے پینے کی فکر رکھے گا دوسروں سے احسان کرنا تو درکنار وہ دوسروں کے جائز حقوق بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ پھر مال کے ضیاع سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شدت سے منع فرمایا ہے اور اس کے نتائج بڑے دوررس ہوتے ہیں۔