فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
ایک فریق کو تو اس نے ہدایت کی اور دوسرے فریق پر گمراہی واجب [٢٨] ہوگئی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا سرپرست بنا لیا تھا پھر وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ وہی سیدھی راہ پر ہیں
[٢٨] ٭شیطان کا برے کام کو اچھا بنا کر پیش کرنا :۔ کردار دو ہیں ایک شیطان کی راہ پر چلنے والے، دوسرے سیدنا آدم علیہ السلام کی راہ پر چلنے والے، واضح رہے کہ کوئی شخص یہ تسلیم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوتا کہ وہ شیطان کی راہ پر چل رہا ہے بلکہ وہ شیطان کا نام سن کر یا نام لے کر دو چار گالیاں بھی اسے سنا دے گا۔ نہ شیطان نے انسان کو گمراہ کرتے وقت کبھی اپنا آپ بتایا ہی ہے بس اس کا کام یہ ہے کہ کسی برے طریقہ کو خوبصورت کر کے پیش کر دے اور ویسے ہی سبز باغ دکھائے جیسے ہمارے باپ سیدنا آدم علیہ السلام کو دکھائے تھے اس میں خواہ وہ کسی دینی مصلحت کی امید دلائے یا کسی دنیوی مفاد کی، اس طرح انسان اس کے بھرے میں آ جاتا ہے اور جس شخص نے اللہ کی سیدھی راہ سے ذرہ بھر بھی انحراف کیا وہ سمجھ لے کہ وہ شیطان کے فریب میں آ چکا ہے کیونکہ اس راہ کے سوا باقی سب شیطانی راہیں ہیں اور چونکہ شیطان بھی کوئی اچھی بات ہی سجھاتا ہے،لہٰذا یہ شیطان کے پیروکار بھی سمجھتے یہی ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ سب شیطانی چالیں ہوتی ہیں۔