قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم سب (یہاں سے) نکل جاؤ تم ایک [٢١] دوسرے کے دشمن ہو۔ اب تمہارے لیے زمین میں جائے قرار اور ایک مدت تک سامان زیست ہے‘‘
[٢١] ٭ابلیس و آدم (علیہ السلام) کی ایک دوسرے سے دشمنی کی وجہ : ابلیس آدم علیہ السلام کا اس لیے دشمن بن گیا کہ اس کی آزمائش کا جس میں وہ سخت ناکام رہا سبب آدم علیہ السلام بنے تھے اور آدم (علیہ السلام) اس لیے ابلیس کے دشمن بنے کہ اس نے مکر و فریب سے سبز باغ دکھا کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر آدم علیہ السلام کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر ہی لیا چنانچہ ان دونوں کو جنت سے نکال کر زمین میں لا بسایا گیا کیونکہ جنت ایسی محاذ آرائی کی جگہ نہیں ہے ایسی محاذ آرائی کے لیے زمین ہی موزوں تھی مناسب یہی تھا کہ حق و باطل کے سب معرکے زمین ہی پر واقع ہوں اس طرح اللہ کی وہ مشیت خود بخود پوری ہوگئی جس کے لیے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیت ہی یہی تھی کہ آدم و حوا اور ان کی اولاد زمین میں آباد ہو اور شیطان ان کا دشمن بن کر آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کو گمراہ کرتا رہے اور ان کے درمیان محاذ آرائی کا عمل جاری رہے اور اس طرح اس دنیا کو بنی آدم کے لیے دارالامتحان بنایا جائے تو پھر آخر اس قصہ آدم و ابلیس میں ابلیس کا یا آدم (علیہ السلام) کا قصور ہی کیا تھا ہونا تو وہی تھا جو اللہ کی مشیت میں تھا۔ پھر آدم و ابلیس اللہ کی نافرمانی کے مورد الزام کیوں ٹھہرائے گئے؟ ٭اللہ کی مشیت اور تقدیر کا مسئلہ : اس طرح کے سوالات قرآن کریم میں اور بھی متعدد مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جیسے اسی سورۃ میں ایک مقام پر فرمایا کہ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ (٧ : ١٧٩) یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے؟ اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے مثلاً جب شکم مادر میں روح پھونکی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شخص جنتی ہوگا یا جہنمی۔ اور ایسے مقامات کتاب و سنت میں بے شمار ہیں۔ جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ میں محض کھلونے ہیں مشیت تو اللہ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو کسی چیز کے نتیجہ کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور یا اس کا پابند نہیں بناتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادہ و اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اس کا اللہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے اس بات کو ہم یہاں ایک مثال سے سمجھائیں گے۔ ایک بادشاہ اپنی مہمات میں اکثر اپنے درباری نجومی سے مشورہ لیا کرتا تھا نجومی اسے سیاروں کی چال کے زائچے تیار کر کے امور غیب سے مطلع کردیتا نجومی کی یہ خبریں کبھی درست ثابت ہوتیں اور کبھی کوئی خبر غلط بھی ثابت ہوجاتی۔ ایک دفعہ بادشاہ اس نجومی سے خفا ہوگیا اور وہ اس نجومی کو کسی بہانے سزا دینے کے متعلق سوچنے لگا اسے یک دم ایک خیال آیا اور اس نے ایک ایسا کمرہ بنانے کا حکم دیا جس کے چاروں طرف دروازے ہوں جب ایسا کمرہ تیار ہوگیا تو اس نے اس نجومی کو بلا کر کہا : میں اس کمرے میں داخل ہونے والا ہوں تم حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس کمرے کے کون سی سمت والے دروازے سے باہر نکلوں گا۔ نجومی کو بھی بادشاہ کی خفگی کا علم تھا وہ سمجھتا تھا کہ یہ سوال در اصل اس کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ سوال کا جواب تو میں دے دوں گا لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب لکھ کر آپ کے کسی معتمد علیہ وزیر کے پاس سربمہر کر کے امانت رکھ دیتا ہوں آپ یہ جواب اس وقت دیکھیں جب آپ کمرہ سے باہر نکل آئیں۔ بادشاہ نے اس شرط کو منظور کرلیا نجومی نے سوال کا جواب لکھ کر سربمہر کر کے وزیر کے حوالے کردیا تو بادشاہ نے اپنے معمار کو بلا کر کہا کہ میں اس کمرہ میں داخل ہوتا ہوں اس کے چاروں دروازے مقفل کردینا اور مجھے چھت پھاڑ کر اور سیڑھی لگا کر اوپر سے نکال لانا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ باہر آ کر بادشاہ نے نجومی کا جواب طلب کیا جو سب کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا تھا کہ بادشاہ کسی بھی دروازے سے نہیں بلکہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے گا بادشاہ یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا اور نجومی اس کے عتاب سے بچ گیا۔ اب دیکھئے کہ نجومی کی پہلے سے لکھی ہوئی تحریر نے بادشاہ کو ہرگز اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے بلکہ وہ اس کام میں مکمل طور پر آزاد اور بااختیار تھا بالکل یہی صورت ان مسائل کی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان جو کچھ کرتا ہے مکمل طور پر اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اسی بناء پر اسے جزا و سزا ملے گی۔ رہی پیشگی لکھنے یا مشیت یا تقدیر کی بات تو یہ چیز اسے مجبور سمجھنے پر دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ بات تو اللہ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے۔