وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ
پھر ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں فی الواقع تمہارا خیر خواہ [١٧] ہوں۔
[١٧] ٭شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے : ان دو آیات میں شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریق کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس طریق کا آغاز شیطان کا انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے سے ہوتا ہے اور وسوسہ سے مراد ہر وہ خیال ہے جس پر عمل کرنا کسی امر الٰہی کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہو یعنی انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کا پہلا حملہ اس کے خیالات پر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کی رگوں میں یوں دوڑتا ہے جیسے انسان کا خون دوڑتا ہے (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب صفۃ ابلیس و جنودہ) (٢) شیطان انسان کو کبھی کوئی برا راستہ دکھا کر گمراہ نہیں کرتا، نہ کرسکتا ہے بلکہ ہمیشہ اسے سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کام کرو گے تو تمہاری حالت موجودہ حالت سے بدرجہا بہترین ہو سکتی ہے اور فلاں کام کرنے سے تمہارے کاروبار میں خاصی ترقی ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ سیدنا آدم و حوا (علیہما السلام) کو بھی اس نے ایسے ہی سبز باغ دکھائے کہ اگر تم اس درخت کو کھالو گے تو پھر فرشتوں کی طرح یا فرشتے بن جاؤ گے تو پھر تمہارا اس جنت سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ (٣) ابلیس یا اس کے چیلے چانٹے سبز باغ ہی نہیں دکھاتے بلکہ طرح طرح کے دلائل اس کے دل میں ڈال کر اسے یہ یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ جو راہ اس نے دکھائی وہ فی الواقع اس کے لیے بہتری اور اس کی خیر خواہی کی راہ ہے اس میں اس کا اپنا کچھ مفاد نہیں اور اس یقین دہانی کے لیے اگر اسے قسمیں بھی کھانا پڑیں تو کھائے جاتا ہے۔ (٤) شیطان کا سب سے پہلا ہدف انسان کے صنفی یا جنسی اعضاء ہوتے ہیں انسان کو گمراہ کرنے کی سب سے آسان صورت یہ ہوتی ہے کہ فحاشی کے دروازے کھول دے اور جنسی معاملات میں اسے بے راہ رو بنا دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان میں فطری طور پر جو شرم و حیا کا جذبہ رکھ دیا ہے اس جذبہ کو کمزور تر بنا دے ابلیس اور اس کے چیلوں چانٹوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ایسے لوگوں کے نزدیک تہذیب و تمدن کی ترقی کا کوئی کام شروع ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ عورت کو بے حیا بنا کر بازار میں نہ لا کھڑا کریں اور اختلاط مرد و زن کی ساری راہیں کھول نہ دیں۔ عورت کے گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کو ان لوگوں نے عورت کے لیے قید خانے کا نام دے رکھا ہے اور پردے کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور یہ سب کچھ شیطان کی سکھائی ہوئی چالیں ہیں۔ اور یہ خیال کہ شیطان نے پہلے حوا( علیہا السلام) کو گمراہ کیا اور پھر حوا (علیہا السلام) کے کہنے پر سیدنا آدم علیہ السلام نے بھی اس درخت کا پھل کھالیا ، غالباً اسرائیلیات سے لیا گیا ہے کتاب و سنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ملتی۔ قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے دونوں سے وعدے وعید کیے اور دونوں اس کے چکمے میں آ گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اس درخت کے قریب جانے سے سیدنا آدم علیہ السلام و حوا کو منع کردیا تھا تو پھر وہ کیسے شیطان کے دام میں پھنس گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدتوں گزر چکی تھیں کہ آدم و حوا دونوں عیش و آرام سے جنت میں رہ رہے تھے اور انہیں اس درخت کے پاس آنے کا کبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔ حتیٰ کہ اللہ کا یہ حکم انہیں بھول ہی گیا تھا اس وقت شیطان کو اس نافرمانی پر اکسانے کا موقع مل گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہے آیت ﴿فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ﴾ ( طہ :115) ’’پھر آدم علیہ السلام اللہ کا حکم بھول گئے اور ہم نے اس میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہ پایا۔‘‘