سورة الانعام - آیت 158

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود آپ کا پروردگار آئے یا اس کی کوئی نشانی (معجزہ) آئے؟ جس دن کوئی ایسا معجزہ آگیا تو اس وقت کسی کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ [١٨١] نہ دے گا جو اس سے پیشتر ابھی تک ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان کی حالت میں نیکی کے کام نہ کئے ہوں۔ آپ ان سے کہئے کہ : تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨١] فرشتہ آئے یا پروردگار، عام انسان ان کے دیدار تک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورتوں میں اس پر فوراً موت واقع ہوجائے گی اور موت کے وقت کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور اگر انسان کوئی ایسا حسی معجزہ دیکھ لے جو اسے ایمان لانے پر مجبور بنا دے تو ایسا جبری ایمان بھی قابل قبول نہیں کیونکہ ایسی صورتوں میں ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں اور فائدہ ایمان بالغیب کا ہے۔ موجود اور آنکھوں دیکھی چیز پر تو سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ جب حقیقت سے پردہ اٹھ گیا تو پھر ایمان کے کیا معنی؟ لہٰذا یقینی چیز یا کوئی یقینی علامت دیکھنے کے بعد اس پر ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو قیامت قائم نہ ہوگی۔ پھر جب لوگ سورج کو مغرب سے نکلتا دیکھ لیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر اس وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تین چیزیں ظاہر ہوں گی تو کسی کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو۔ دجال اور دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور موت کے وقت ایمان کے فائدہ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ دو باتوں پر ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایمان کے زبانی اقرار کی تصدیق تو اعمال صالحہ سے ہی ہو سکتی ہے۔ اور مرنے والے کو عمل کا وقت ہی نہیں ملتا لہٰذا مرتے وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔