سورة الانعام - آیت 124

وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اس وقت تک نہ مانیں گے جب تک ہمیں بھی وہی کچھ نہ دیا [١٣١] جائے (یعنی نبوت) جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا کام کس سے لے جلد ہی ان مجرموں کو اپنی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣١] رسالت وہبی چیز اور کفار کا مطالبہ رسالت :۔ جیسے مثلاً انشقاق قمر کا معجزہ دیکھا تو کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے یہ ان کی ہٹ دھرمی کی ایک دلیل ہے اور اب کہہ رہے ہیں کہ رسولوں کی طرح ہم پر فرشتہ نازل ہو اور رسولوں کو جو کتاب و حکمت اور نبوت دی گئی ہے۔ یہ چیزیں جب تک ہمیں میسر نہ ہوں ہم ایمان نہیں لا سکتے حالانکہ وحی کا بار ہر انسان اٹھانے کا متحمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ استعداد اللہ تعالیٰ انبیاء کے قلوب میں پیدائش ہی سے رکھ دیتا ہے اور یہ صفت اللہ کا دین اور فضل ہوتی ہے۔ محنت مشقت اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہو سکتی اور یہ بات بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ انسانوں میں کون نبوت کا بار اٹھانے کے قابل ہے اور یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں تکبر اور سرکشی کی بنا پر کر رہے ہیں اور حق کے راستہ میں اپنے مکر و فریب سے جو کانٹے بچھا رہے ہیں اس کی پاداش میں انہیں ذلت اور رسوائی کے عذاب سے اس دنیا میں بھی دوچار ہونا پڑے گا اور آخرت میں بھی۔