سورة الانعام - آیت 121

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اسے [١٢٦] مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔ بلاشبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں (شکوک و اعتراضات) القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے [١٢٧] جھگڑتے رہیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرک [١٢٨] ہی ہوئے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٦] جس چیز پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے وہ قرآن کی متعدد آیات کی تصریح کے مطابق حرام ہے اور جس پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نیز اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہمارے پاس لوگ گوشت بیچنے آ جاتے ہیں۔ وہ نیا نیا اسلام لائے ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں لیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم خود بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اسے کھالیا کرو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید والتسمیہ۔ باب ذبیحہ الاعراب و نحو ہم) نیز دیکھئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٣٨ کا حاشیہ۔ [١٢٧] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے’’کیا جس چیز کو ہم خود ماریں (ذبح کریں) اسے تو کھا لیں اور جسے اللہ مارے (یعنی مر جائے) اسے نہ کھائیں؟‘‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٢٨] حلت وحرمت کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ یعنی شرک صرف یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی پرستش کی جائے یا اسے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جائے یا اس کے نام کی قربانی یا نذر و نیاز دی جائے بلکہ اللہ کے سوا کسی کے حلال بتائے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کو حرام سمجھنا بھی شرک ہی ہوتا ہے کیونکہ حلال و حرام ٹھہرانے کے جملہ اختیارات صرف اللہ کو ہیں چنانچہ جب یہ آیت ﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۭسُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ نازل ہوئی تو عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) کہنے لگے ’’یا رسول اللہ ! ہم لوگ اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا جس چیز کو وہ حلال کہتے یا حرام کہتے تو تم ان کی بات مان لیتے تھے؟ عدی کہنے لگے : ہاں! یہ تو تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس یہی رب بنانا ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ یہودیوں کی اس طرح کی گمراہ کن اور شرک میں مبتلا کرنے والی چالوں میں نہ آئیں اور اگر انہوں نے یہود کا کہنا مان لیا تو وہ بھی مشرک ہی بن جائیں گے۔