سورة البقرة - آیت 80

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گنتی کے چند ایام کے سوا انہیں دوزخ کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھئے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی ایسا عہد [٩٤] لے رکھا ہے جس کی وہ خلاف ورزی نہ کرے گا ؟ یا تم اللہ پر ایسی باتیں جڑ دیتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٤] یہود کی عذاب اخروی کے متعلق غلط فہمی اور اس کا جواب :۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے محبوب ہیں لہٰذا ماسوائے چند دن کے انہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان کے اس باطل عقیدہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اس عقیدہ کی اصل کیا ہے؟ کیا اللہ نے تم سے کوئی ایسا وعدہ لے رکھا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دکھاؤ تو سہی۔ یا بس تم اللہ پر ایسی ہی جھوٹی باتیں جڑ دیتے ہو؟ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اے یہود! اگر تم فی الواقع اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے چہیتے ہو اور ماسوائے چند دن کے تمہیں دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی تو پھر تم مرنے کی آرزو کیوں نہیں کرتے یا بالفاظ دیگر ان دنیا کے جھنجٹوں سے نکل کر جنت میں جانے کی آرزو کیوں نہیں کرتے؟ اور چونکہ یہود مرنے کے لیے مطلقاً آمادہ نہیں بلکہ طویل مدت تک دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور تیسرا جواب انہیں یہ دیا گیا کہ اللہ کا قانون جزاء و سزا سب کے لیے یکساں ہے۔ یہاں نسبی رشتے کچھ کام نہیں آئیں گے جس شخص کو اس کی بداعمالیوں نے گھیر لیا وہ یقیناً دوزخ میں ہی جائے گا۔ پھر ہمیشہ اس میں رہے گا اور اس قانون میں اے یہود! تمہارے لیے کوئی تخصیص نہیں۔