سورة الانعام - آیت 65

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے : کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب مسلط کردے یا تمہیں فرقے فرقے بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی (کا مزا) چکھا [٧٢] دے۔ دیکھئے ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٢] عذاب کی قسمیں : اس آیت میں عذاب کی تین اقسام بیان فرمائیں (١) عذاب سماوی جیسے طوفان بادو باراں، کڑک، بجلی کا گرنا، تیز آندھی، پتھروں کی بارش وغیرہ (٢) عذاب ارضی جیسے دریاؤں کا سیلاب، زلزلے اور زمین میں دھنس جانا (٣) فرقہ بازی۔ خواہ یہ مذہبی قسم کی ہو یا سیاسی یا قبائلی ہو۔ یہ تینوں قسم کے عذاب اگلی امتوں پر آتے رہے ہیں۔ تیسری قسم کا عذاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھا۔ حرب فجار اور حرب بعاث مکہ میں حرب فجار اور مدینہ میں حرب بعاث نے خاندانوں کے خاندان تباہ کردیئے تھے۔ سینکڑوں گھرانے اجڑ گئے مگر یہ قبائلی جنگیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں اور پہلی دو قسموں کا عذاب اس وقت آیا کرتا تھا جب کسی قوم کا اس کی سرکشی کی بنا پر مکمل طور پر استیصال مقصود ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب قسم کے عذابوں سے پناہ مانگی اور دعا کی کہ میری امت پر ایسے عذاب نہ آئیں۔ چنانچہ پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوگئی مگر تیسری قسم کے متعلق قبول نہیں ہوئی یعنی پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استیصال کے لئے نہیں آئے گا البتہ جزوی طور پر آ سکتا ہے۔ رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کو ایک مقہور اور مغلوب قوم بنا رکھا ہے اور یہ بھی سرکشی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کا ہی نتیجہ ہے۔