ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ
پھر ان روحوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔[٦٨] جو ان کا حقیقی مالک ہے۔ سن لو! فیصلہ کے جملہ اختیارات اسی کے پاس ہیں اور اسے حساب [٦٩] لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی
[٦٨] موت کے بعد کے احوال اور قبر میں سوال وجواب :۔ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مختصراً یہ کہ جب فرشتے انسان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو فرشتوں کے رویہ سے ہی مرنے والے کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل جنت سے ہے یا اہل دوزخ سے۔ جنتی کی روح کو ریشم کے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو اس روح کی خاصی پذیرائی ہوتی ہے اور آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر اسے عزت و اکرام سے واپس بھیج دیا جاتا ہے اور یہ روح اپنی میت کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور پکارتی رہتی ہے کہ مجھے جلدی جلدی تدفین کے لیے لے چلو۔ پھر تدفین کے بعد قبر میں جب سوال و جواب ہو چکتے ہیں تو اسے مقام علیین پہنچا دیا جاتا ہے اور دوزخی کی روح کو فرشتے بدبودار کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ ہی نہیں کھلتا پھر اسے وہاں سے اپنی میت کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور وہ پکار پکار کر کہتی ہے کہ مجھے تدفین کے لئے نہ لے جاؤ۔ پھر جب تدفین کے بعد قبر میں سوال و جواب ہوتے ہیں اور وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو مقام سجین میں قیامت تک کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔ [٦٩] یعنی عذاب و ثواب کا سلسلہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے پھر قبر میں جنتی کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور وہ قیامت تک ایسے اکرام اور مسرت کی نیند سوتا ہے جیسے کوئی دلہن سوتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے طرح طرح کا عذاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ عذاب و ثواب قیامت کے بعد کے عذاب و ثواب کی نسبت بہت ہلکے ہوتے ہیں۔ قیامت کو حساب و کتاب کے بعد دوزخی کو جو عذاب ہوگا وہ اس سے شدید تر ہوگا۔ اسی طرح جنتی پر جو انعامات ہوں گے وہ قبر کے انعام سے بہت زیادہ ہوں گے۔