وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگران [٦٦] (فرشتے) بھیجتا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اسکی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ (اپنے کام میں) ذرہ بھر کوتاہی [٦٧] نہیں کرتے
[٦٦] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں دن اور رات کے فرشتے ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں۔ عصر اور فجر کی نماز کے وقت وہ جمع ہوجاتے ہیں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ ’’تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟‘‘ حالانکہ وہ تم سے خوب واقف ہوتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے جب انہیں چھوڑا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ اور ’’جب انکے پاس گئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب فضل صلٰوۃ العصر۔ بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعرج الملئکۃ والروح الیہ ) حفاظت کرنے والے اور اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ اس حدیث میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو انسان کا نامہ اعمال مرتب کرتے ہیں۔ رات کے فرشتے الگ ہیں اور دن کے الگ۔ ان کے علاوہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں جب انسان اپنی موت اپنے سامنے کھڑی دیکھ لیتا ہے۔ لیکن حالات کا رخ ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ اس کی جان بچ جاتی ہے اور وہ خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’اس وقت اللہ ہی تھا جس نے اس کی جان بچا لی۔‘‘یا یہ کہ ’’ابھی زندگی باقی تھی ورنہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔‘‘ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ابھی اس انسان کی موت کا معین وقت آیا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ﴿قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ ﴾ انسانی زندگی اور موت کے سب مراحل اضطراری ہیں :۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ﴾ یعنی تمام مخلوقات اور انسان اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین کے سامنے بالکل بے کس اور مجبور محض ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر میں ہر شخص کی شکل و صورت جیسے خود چاہی ویسی ہی بنا دی۔ اس میں اس کا اپنا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر جب پیدا ہوا اور ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اس وقت بھی اس کی اپنی مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر پیدا ہو کر وہ کھانے پینے پر مجبور ہے تاکہ اس کی تربیت اور پرورش ہو۔ اسی طرح وہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کرنے پر بھی مجبور ہے اور جنسی ملآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مجبور ہے لیکن اولاد پیدا کرنے میں اس کا کچھ عمل دخل نہیں۔ چاہے تو کسی نادار کو کثیرالاولاد بنادے اور چاہے تو کسی امیر کبیر کو اولاد سے محروم کر دے۔ پھر وہ اپنے مرنے پر بھی مجبور ہے اور زندگی کے دن پورے کرنے پر بھی جب تک اس کی موت کا متعین وقت نہ آئے خواہ وہ کیسے ہی حوادث سے دو چار ہو فرشتے اس کی جان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور جب وہ معین وقت آ جاتا ہے کوئی حکیم، کوئی ڈاکٹر یا اس کا مال و دولت اور اس کے نہایت قریبی رشتہ دار اسے موت کے منہ سے بچا نہیں سکتے۔ پھر رزق کے حصول میں بھی بہت حد تک مجبور ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ امیر کبیر بن جائے لیکن اسے رزق ملتا اتنا ہی ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے اور جو مقدر میں ہوتا ہے وہ مل کے رہتا ہے۔ بعینہ انسان موت کے بعد کی منازل یعنی دوبارہ زندہ ہوجانے، اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور پیش ہوجانے اور ان اعمال کی جزا و سزا پانے پر مجبور ہے اور کوئی چیز اسے ان نتائج سے نہ بچا سکتی ہے، نہ آڑے آ سکتی ہے اور ان تمام معاملات میں اس کی اپنی مرضی کو کچھ بھی عمل دخل نہیں ہوگا اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے۔ [٦٧] یعنی وہ اپنی ڈیوٹی میں کسی طرح کی غفلت نہیں کرتے۔ انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا فعل یا عمل یا قول ایسا نہیں ہوتا جسے فرشتے اس کے نامہ اعمال میں لکھ نہ لیتے ہوں۔ یا جس شخص کی ابھی موت نہ آئی ہو اس کی حفاظت نہ کریں اور وہ معینہ وقت سے پہلے مر جائے۔ یا کسی کا معینہ وقت آ چکا ہو لیکن اس کی روح کو قبض نہ کریں۔ یا موت تو زید کی معین ہو اور وہ اس کے بجائے بکر کی روح قبض کرلیں۔ ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے حکم میں کسی طرح کی کمی بیشی کر ہی نہیں سکتے۔