وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ انہیں کہئے : تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر [٥٧] رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ کہ تم میں سے کوئی شخص [٥٨] لاعلمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے پھر اسکے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو یقینا وہ معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہے
[٥٧] مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں کئی بڑے گناہ سرزد ہوچکے تھے۔ اگرچہ اب انہوں نے بہت حد تک اپنی اصلاح کرلی تھی اور ان کی زندگی بدل چکی تھی لیکن مخالفین اسلام انہیں ان کے سابقہ اعمال و عیوب پر طعنے دینے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس پس منظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کو تسلی دیں اور کہیں کہ آپ کا پر ورگار بڑا غفور رحیم ہے جو شخص اسلام لا کر یا توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ یقینا پچھلے گناہوں پر گرفت نہیں کرے گا جیسا کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا کہ ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جائیں گی اور برائی کے عوض ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف فرما دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب حسن اسلام المرء۔۔) لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو یقین دلائیے کہ تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے۔ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ وہ یقیناً تمہاری اسلام لانے سے پہلے کی برائیوں کو معاف فرما دے گا۔ پھر اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلطی سے یا لاعلمی سے کوئی گناہ کا کام کر بیٹھے پھر اللہ کے حضور توبہ کرلے تو اللہ یقینا اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے۔ [٥٨] ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی (جس میں یہ لکھا کہ) میری رحمت میرے غضب سے آگے نکل گئی۔ اور یہ بات اس کے پاس عرش پر لکھی ہوئی ہے۔‘‘ (بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ) ٢۔ ننانوے آدمیوں کے قاتل کے احوال :۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے آدمی ناحق قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اس سے پوچھا ’’کیا میرے لیے توبہ (کی گنجائش) ہے؟‘‘ اس نے کہا ''نہیں'' تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (سو پورے کردیئے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ : فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ میں ہی اسے موت نے آن لیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ اب رحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کو وہ جا رہا تھا اسے اللہ نے حکم دیا کہ نزدیک ہو اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چنانچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل ) ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اللہ نے اس کو مال اور اولاد دی تھی۔ جب وہ مرنے لگا تو اپنے بیٹوں سے پوچھا : میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ وہ کہنے لگے۔ اچھا باپ تھا۔ باپ نے کہا : دیکھو! میں نے کوئی نیکی اللہ کے ہاں جمع نہیں کی اور اگر میں اللہ کے ہاں پہنچ گیا تو وہ ضرور مجھے سزا دے گا۔ لہٰذا تم ایسا کرنا کہ میں جب مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہوجاؤں تو باریک پیس کر اس کے ذرات تیز آندھی میں بکھیر دینا۔ اس نے اپنی اولاد سے قسم دے کر یہ عہد لیا۔ چنانچہ اس کی اولاد نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن کہا تو وہ شخص اللہ کے حضور کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا : میرے بندے! جو کچھ تو نے کیا ہے کونسی بات اس کی محرک بنی تھی؟ وہ کہنے لگا : فقط تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ڈرنے کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرما دیا (بخش دیا)۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب الخوف من اللہ )