سورة الانعام - آیت 34

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے تو جن باتوں میں انہیں جھٹلایا گیا اس پر انہوں نے صبر کیا، انہیں ایذا بھی دی گئی تاآنکہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور اللہ کے کلمات [٣٨] کو کوئی بدلنے والا نہیں اور آپکے پاس رسولوں کی خبریں تو آہی چکی ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] حق کو غالب کرنے کے لئے اللہ کی سنت یا قوانین کیا ہیں؟ کلمات سے یہاں مراد اللہ کے وہ قوانین یا سنت جاریہ ہے جو حق و باطل کے معرکہ میں پیش آتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کوئی نبی یا رسول جب اپنی دعوت کا آغاز کرتا ہے تو ہر طرف سے اس کی مخالفت پر لوگ کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔۔ پھر انہی میں سے کچھ سلیم فطرت اور اخلاق فاضلہ رکھنے والے لوگ نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب یہ ایمان لانے والی جماعت اور خود نبی کی ذات مخالفین کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے، ظلم و ستم سہتے اور صبر و ثبات سے کام لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ستم زدہ لوگ مقابلتاً کمزور ہونے کے باوجود باطل سے ٹکر لینے پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہرگز نہیں کہ ایمان لانے والوں کو آزمائے بغیر اور انہیں مشکلات و مصائب سے گزارے بغیر از خود ہی بعض معجزانہ قسم کے حالات پیدا کر کے حق کو باطل پر غالب کر دے۔ یہ ایسے قوانین ہیں جن میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ جیسا کہ آپ کو پہلے رسولوں کے حالات سے یہ باتیں معلوم ہو ہی چکی ہیں۔