قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
موسی نے کہا کہ!’’وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے خدمت نہ لی جاتی ہو جو نہ تو زمین جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی پلاتی ہو، صحیح و سالم ہو اور اس میں کوئی داغ نہ ہو۔‘‘ وہ کہنے لگے : ’’موسیٰ ! اب تم نے ٹھیک ٹھیک پتہ بتلا دیا۔‘‘ (اتنی لیت و لعل کے بعد) انہوں نے گائے ذبح کی جبکہ معلوم ایسا ہو رہا تھا کہ وہ یہ کام نہیں کریں گے۔[٨٥]
گائے ذبح کرنے میں کٹ حجتیوں کی سزا :۔ غرض یہ کہ یہ قوم جتنے سوال کرتی گئی، پابندیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ان ساری پابندیوں کے بعد بس اب ان کے ہاں صرف ایک ہی گائے رہ گئی جو تقریباً سنہری رنگ کی بےداغ اور جواں تھی اور ایسی ہی گائے ہوتی تھی جسے پوجا پاٹ کے لیے انتخاب کیا جاتا تھا۔ اب ایک تو انہیں اپنے معبود کشی کی ذہنی کوفت تھی۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کی یہ گائے تھی وہ ایک نیک بخت آدمی تھا جو اپنی ماں کی بہت خدمت کرتا تھا۔ جب اسے اس کی اہمیت معلوم ہوئی تو اس نے منہ بھر کر اس گائے کے دام مانگے، اس کی قیمت یہ ٹھہری کہ گائے کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال میں جتنا سونا آئے وہ اس کی قیمت ہوگی۔ چنانچہ ان لوگوں کو وہ قیمت ادا کرنا پڑی۔ اتنے سوال و جواب کے بعد انکار یا مزید کٹ حجتی کرنا بھی محال تھا اور اس کے بعد بالآخر انہیں اس گائے کو ذبح کرنا ہی پڑا۔ حالانکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر ہی گائے ذبح کرنے کو آمادہ ہوجاتے تو وہ کوئی بھی گائے ذبح کرسکتے تھے۔